ویب ڈیسک:اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو 27 جون کو سنایا جائے گا جبکہ کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے عدت نکاح کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی اور مرکزی اپیلوں کی درخواست پر سماعت کی۔
بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر کے دلائل
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ میں سزا معطلی کی درخواست پر 7 منٹ دلائل دوں گا، شکایت کنندہ کو اس سے کم وقت میں بھی دلائل دینے چاہیے، آج مرکزی اپیل اور سزا معطلی کی اپیل زیر سماعت ہے، میری ذمہ داری عدالت کو بتانا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کون ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ان اپیلوں پر پہلے 15 سے زائد سماعتیں 3 ماہ میں ہوچکی ہیں، اس کیس میں کبھی شکایت کنندہ اور کبھی پراسیکیوشن نے کہا کیس پڑھنا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس میں کچھ نہیں، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیسے دیتے ہیں۔
اس موقع پر وکیل زاہد آصف کا کہنا تھا کہ سلمان صفدر ایک قابل وکیل ہیں اور ہر جگہ ان کی تعریف کی۔
عمران خان کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے ہیں، وکیل
بعد ازاں سلمان صفدر نے کہا کہ اپیل کنندہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ ہیں، الیکشن سے قبل عمران خان کو سزا سنائی گئی، عمران خان کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے ہیں، عمران خان کے کیسز سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ایسی یونیک پراسیکیوشن میں نے آج تک نہیں کی، متعدد کیسز عدالتوں نے اڑا دیئے، سائفر کیس ،توشہ خانہ کیس ،پھر نکاح کیس میں سزا دی گئی جیسے سینما کی اسکرین کا ٹائم، مجھے اس کیس کے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے، سائفر کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا تو عدالت نے کہا مرکزی اپیل سنیں یا سزا معطلی کی، میں نے کہا مرکزی اپیل ورنہ میرے لیے آسان تھا سزا معطلی پر دلائل دیتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سائفر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا مگر اپیل دائر کردی گئی، ٹرائل میں ہمارے وکلا کو باہر نکالا گیا، دیر تک سماعتیں چلیں، ہائی کورٹ کے لیے آسان تھا کیس ریمانڈ بیک کرنا مگر نہیں ہوا، میرٹ پر فیصلہ ہوا، سائفر کے پاس توشہ خانہ کیس سامنے آیا، اس کیس میں بھی دوسرے طرف کے وکیل نے سزا معطلی کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا، مجھے امید ہے آج بھی دوسری طرف کے وکیل یہی کریں گے، سیشن جج شاہ رخ ارجمند کے پاس بھی مرکزی اپیلیں اور سزا معطلی کی درخواستیں آئی، جب فیصلہ آنا تھا تو ریفرنس بن جاتا ہے اس کے بعد کیس آپ کے پاس آتا ہے
“ مجھے نہیں معلوم عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے جو بھی فیصلہ آیا سن کر چلا جاؤں گا“
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ مجھے نہیں معلوم عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے مگر جو بھی فیصلہ آیا میں سن کر چلا جاؤں گا، مجھے اختلاف ہوگا تو میں اپیل میں چلا جاوں گا، سلمان اکرم راجا نے ٹھیک کہا تھا کہ میں اس کیس میں پیش ہوتا رہا مجھے فیصلہ چاہیے، اگر اپیلیں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیر سماعت ہوں تب بھی ہائی کورٹ کے پاس سزا معطلی کے اختیارات ہیں، میری کوشش تھی بشریٰ بی بی عید سے پہلے گھر آجاتیں ، سلمان اکرم راجا صاحب کا کہنا تھا کہ وہی جج فیصلہ کریں جنہوں نے کیس سنا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ جب ہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں گئے تو ایک ایک چیز بتائی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ مکمل طور پر آگاہ ہے کہ نیچے کیا چل رہا ہے، شکایت کنندہ بار بار تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔
سلمان صفدر نے عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا
اسی کے ساتھ سلمان صفدر نے عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 10 روز میں سزا معطلی اور 30 دن میں مرکزی اپیلوں پر فیصلے کا کہا ہوا ہے، جب سزا دینی ہو تب فٹا فٹ اور اپیل پر دھیرے دھیرے؟
انہوں نے کہا کہا میں اب میں سزا معطلی کی درخواست کے لیگل معاملات پر آتا ہوں، ہم نے اصول سیکھا ہے اپیل میں ججمنٹ پڑھتے ہیں، آپ جیل میں کریمینل کیسز کیلئے اکثر جاتے ہیں، میں جیل میں بینظیر کیس، اجمل قصاب کیس کے لیے جاتا رہا، مگر اب عدت کیس میں جانا پڑا، کبھی لکھا تو اس کیس پر ضرور لکھوں گا، عثمان گِل نے عون چوہدری سے پوچھا آپ نے گھڑی کونسی پہنی تو لڑائی ہوگئی، جج صاحب نے بھی کہا اس سوال کا اس کیس سے کیا تعلق، میں نے کہا میں بتاتا ہوں اس سوال کا مقصد یہ بتائیں گھڑی پر ٹائم کیا ہے تو 8 بجے ہوئے تھے، اس وقت بھی ہماری جرح کا آغاز ہوا تھا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید بتایا کہ اس درخواست میں خاص بات یہ ہے کہ کہا گیا کہ جرم کا ایک حصہ لاہور اور دوسرا اسلام آباد میں ہوا ہے، 496 بی میں فرد جرم لگا ہی نہیں۔
اس میں فرد جرم کیوں نہیں لگی یہ بتائیں فیصلے میں لکھی ہے، جج
اس پر جج نے دریافت کیا کہ اس میں فرد جرم کیوں نہیں لگی یہ بتائیں فیصلے میں لکھی ہے۔
بشری بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ کیونکہ یہ پرائیوٹ درخواست تھی اس کے لیے دو گواہان کا ہونا ضروری تھا اس وجہ سے اس میں فرد جرم نہیں لگی، سلمان صفدر نے کہا کہ جو کیس یہاں کا بنتا ہی نہیں تھا اس میں سزا دے دی گئی، اسلام آباد میں الزام 496 بی کا تھا مگر وہ دفعات ختم ہوگئیں، جب اسلام آباد کا کوئی الزام ہی نہیں تھا تو کیس کو لاہور جانا تھا۔
سلمان صفدر نے ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیے
اس موقع پر سلمان صفدر نے ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیے۔
انہوں نے کہا کہ میں کئی سالوں سے کریمینل کیسز لڑ رہا ہوں، جب اس کیس کو لڑنے کے لیے پڑھا تو پتا چلا ماضی میں ایسا کیس کسی نے نہیں لڑا، عجیب کیس ہے میاں بیوی دونوں اندر فراڈ، کس نے کس کے ساتھ کیا؟ شکایت کنندہ کہتا ہے کہ زیادتی ہوئی لطیف نے بتایا وغیرہ وغیرہ، ہر درخواست کا ایک ٹائم ہوتا ہے مگر یہاں 6 سال 2 ہزار دنوں بعد درخواست دائر ہوئی، شکایت کنندہ کے گواہان میں اس کے بچے بھی شامل نہیں ہیں، اس کیس میں ایک سیاسی پارٹی کا رہنما گواہ ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے سارے کیسز بہادری سے لڑے، دہشت گردی کے کیسز بناتے کوئی اور بناتے مگر عدت کے دوران شادی کا کیس بنا دیا گیا، الزام ہے کہ عدت پوری کیے بغیر نکاح کیا گیا، اگر دو خاوند دعویٰ کرتے یا بچوں کے حوالے سے کیس ہوتا تو سمجھ آتا، اس کیس میں تو بچے بھی شکایت کنندہ نہیں ہیں، درخواست گزار کہتا ہے میری ساری فیملی ڈسٹرب ہوئی ہے، استغاثہ کی آدھی باتیں 496 بی کے ختم ہونے پر ہی جھوٹی ثابت ہوگئی، اس کیس کی اہمیت ہوتی اگر بروقت فائل کیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس درخواست میں اتنی تاخیر کی گئی جس کا کوئی عدالتی حوالہ ہی نہیں، میں اس بات کو ایک طرف رکھتا ہوں کہ عدت کا ٹائم کتنا ہوتا ہے، اس کیس میں فرد جرم بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں لگائی گئی، سزا معطلی کے لیے ایک بات ہی بہت ہے کہ کورٹ ٹائم کے بعد بھی عدالت کیوں لگی رہی؟
انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ نے پہلے کہا مرکزی اپیل پھر کہا سزا معطلی پر دلائل دیں، ہمیں گواہان کو بلانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی، ہمارے گواہان کے طور پر بشریٰ بی بی کے بچوں نے پیش ہونا تھا، اگلے دن صبح کیس کا فیصلہ سنادیا مگر ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔
گواہان طلبی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ پڑھا گیا
بعد ازاں اپیل کنندہ کے وکیل کی جانب سے گواہان طلبی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ پڑھا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ عدت کیس میں آدھی رات تک سماعت چلتی رہی۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ عموماً عدالتیں 5 سال تک کی سزا کو مختصر سزا کہتی ہیں، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 8 سال تک کی سزا کو معطل کروایا ہے۔
سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیا
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے سپریم کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ سزا معطلی کے لیے مضبوط گراؤنڈ ہے کہ اپیل کنندہ خاتون ہے، اپیل کنندہ 5 بچوں کی ماں ہے، 496 بی میں کہیں بھی عدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اس پر جج نے کہا کہ سپریم کورٹ ججمنٹ کے حوالے سے میرے سوال ہیں، آپ نے جن نکات کی بات کی تھی وہ پانچ رکنی بینچ کالعدم قرار دے چکا ہے، میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون کے مطابق ہوگا، دورانِ عدت اگر خاوند مر جاتا ہے تو کیا خاتون کو وراثت میں ملے گا؟ اس سوال کے حوالے سے مرکزی اپیل پر آپ نے مجھے مطمئن کرنا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس حوالے سے دیگر کیسز وہ ہوں گے جن میں درخواست بروقت ہوگی، دوسرے کیسز میں گواہان کو پیش کرنے کا پورا موقع ملا ہوگا، اس کیس کے پورے تناظر کو بھی دیکھنا ہوگا، سب سے مضبوط گراؤنڈ ہے کہ 496 بنتا کیسے ہے؟ فراڈ اور دھوکا کس کے ساتھ ہوا ہے؟ عدت کے اندر شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے، 7 سال سزا تو دور کی بات ہے ، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بے ضابطگیاں کی گئی ہیں۔
سلمان صفدر کی جانب سے دلائل مکمل
اسی کے ساتھ اپیل کنندہ کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے دلائل مکمل کرلیے گئے جبکہ عدالت نے کیس کی سماعت میں 20 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
وقفہ کے بعد خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری دلائل کا آغاز کریں گے۔
خاور مانیکا کے وکیل کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت
وقفے کے بعد خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری دلائل دیتے ہوئے سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیس سزا معطلی کا بنتا ہے یا نہیں، اپیل کنندہ کے وکیل نے خاور مانیکا کے لیے جھوٹے کا لفظ استعمال کیا، عدالت میں خاور مانیکا کا پورا انٹرویو نہیں بلکہ کلپ چلایا گیا، خاور مانیکا کا بیٹا موسی مانیکا بھی نجی چینل کو انٹرویو دے چکا ہے، اس انٹرویو میں اس نے کہا بشریٰ بی بی اور عمران خان کے نکاح کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یوٹرن کا لفظ عمران خان کی جانب سے متعارف کروایا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون؟ 7 جنوری کو عمران خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو شادی کے لیے پروپوزل بھیجا ہے، اس موقع پر کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے اقرار یا انکار پر رشتے کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کیا جائے گا، نکاح کے لیے ولی کی اجازت ہونا ضروری ہے۔
خاور مانیکا کے وکیل نے مختلف احادیث کا حوالہ دیا
بعد ازاں خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کی جانب سے مختلف احادیث کا حوالہ دیا گیا۔
انہوں نے حوالہ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، قرآن و سنت کے مطابق گواہان کے بغیر نکاح جائز نہیں، زاہد آصف
خاور مانیکا کے وکیل نے دوران دلائل خدا گواہ فلم کا گانا سنایا
اسی کے ساتھ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف نے دوران دلائل عدالت میں خدا گواہ فلم کا گانا، تو مجھے قبول میں تجھے قبول گا کر سنایا۔
وکیل نے کہا کہ خاتون کی پرائیویسی کے بارے میں بات کی گئی لیکن فیملی کی پرائیویسی کا ذکر نہیں کیا، شکایت کنندہ کی بیوی کو بہلانے والا طلاق دلوانے والا اور عدت میں نکاح کرنے والا جھوٹا ہے یا مفتی سعید؟ کہتے ہیں عورت کا کہہ دینا کافی ہے یہ تو بتائیں عورت نے کہا کب؟ وہ بیان کدھر ہے، بشریٰ بی بی کی جانب سے ایک مرتبہ بھی عدت کے حوالے سے نہیں بتایا گیا۔
وکیل زاہد آصف نے بتایا کہ وکیل سلمان صفدر نے کہا کے بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی، لیکن جب فرد جرم عائد کی گئی تب بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھیں، دستخط کے وقت چلی گئیں، یہ کہتے ہیں بچوں نے پیش ہونا تھا، کس کے بچوں نے پیش ہونا تھا؟ اس حوالے سے عدالت کو کوئی نام نہیں فراہم کیے گئے تھے۔
خاور مانیکا کے وکیل نے اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیا
خاور مانیکا کے وکیل نے کہا کہ یہ سزا شارٹ ٹرم نہیں ہے جبکہ زاہد آصف کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔
اس موقع ہر عدالت نے دریافت کیا کہ پچھلی تاریخ پر میں نے سوال پوچھا تھا کہ آپ کے کلائنٹ کو شادی کا کب پتا چلا؟ وکیل نے جواب دیا کہ خاور مانیکا نے کراس ایگزامن میں بتایا کہ 2 جنوری کو پتا چلا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ تو پھر انہوں نے اسی وقت درخواست کیوں دائر نہیں کی؟ سلمان اکرم راجا نے کہا جب آپ کے کلائنٹ کا چلہ کروایا گیا تو اس کے بعد درخواست دائر کی گئی۔
اس پر وکیل نے کہا کہ جی نہیں ایسے حالات نہیں تھے، ایک تحقیقاتی ادارے نے تفتیش کے لیے انہیں گرفتار کیا تھا۔
اس پر جج افخل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ کیا شکایت کنندہ پر کوئی پریشر تھا یا دھمکی دی گئی تھی؟ اس حوالے سے پہلے درخواست کیوں نہیں دی گئی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ شریف لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے فیملی معاملات پبلک نہ ہوں۔
خاور مانیکا کے وکیل نے بتایا کہ میں کچھ چیزوں پر ابھی دلائل نہیں دوں گا، اس حوالے سے صورہ طلاق کی آیات بڑی واضح ہیں، جج صاحب کے حوالے سے کہا گیا، تو کیا ان کے خلاف کوئی درخواست دی گئی تھی؟
شکایت کنندہ کے وکیل کے سزا معطلی کی اپیل پر دلائل مکمل
اسی کے ساتھ شکایت کنندہ کے وکیل زاہد آصف نے سزا معطلی کی اپیل پر دلائل مکمل کر لیے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ مرکزی اپیل پر آپ کب میسر ہوں گے؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ ہم مکمل فری ہیں، جج نے ریمارکس دیے کہ ہم 2 جولائی کو کیس کو رکھ رہے ہیں۔
اس کے بعد سلمان صفدر نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کردیا۔
انہوں نے کہا کہ زاہد آصف ایڈووکیٹ کے دلائل میں صرف گانے کے سُر پکے تھے، آج شکایت کنندہ کے وکیل نے کہا دیگر سیکشن کا بھی اطلاق ہوتا ہے، سب چیزیں ایک طرف سزا معطلی کے لیے بشری بی بی کا خاتون ہونا ہی کافی ہے۔
اسی کے ساتھ عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ایڈیشنل سیشنز جج افضل مجوکا نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
عدالت کی جانب سے سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ 27 جون کو 3 بجے سنایا جائے گا، اس کے علاوہ عدت میں نکاح کیس سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔
کون سی سماعت میں کیا ہوا؟
واضح رہے کہ 21 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت 25 جون تک ملتوی کردی تھی۔
14 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے سزا معطلی اور جلد سماعت کی اپیلوں پر سماعت 21 جون تکل ملتوی کردی گئی تھی، اس دوران جج افضل مجوکا نے کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو 10 دن میں فیصلہ کروں گا۔
13 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی کیس جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کے دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے تھے کہ اس کیس میں پہلے بھی دو بار عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ، کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا جس سے مشکلات ہوں۔
11 جون کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت 13 جون تک ملتوی کردی تھی۔
7 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت 11 جون تک ملتوی کردی تھی۔
یاد رہے کہ 4 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس کی جلد سماعت اور سزا معطلی کی درخواست پر 7 جون کو دلائل طلب کرلیے تھے۔
دوران سماعت بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ عدت نکاح کیس میں فروری سے دلائل دے رہے ہیں، بشریٰ بی بی بیمار بھی ہیں، اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ عدت میں نکاح کیس کی فائل کل مارک ہوئی، 5 مرتبہ کیس کال کیا، کوئی پیش نہیں ہوا، اس لیے عدت میں نکاح کیس میں 25 جون کی تاریخ مقرر کر دی، بشریٰ بی بی کی جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ 3 جون کو سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
واضح رہے کہ 29 مئی کو کیس کی سماعت کے دوران سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے جج شاہ رخ ارجمند پر اعتراض کیا تھا۔
خاور مانیکا نے سیشن جج سے مکالمہ کیا تھا کہ ہمارا کیس کسی اور عدالت میں ٹرانسفر کر دیں، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کی درخواست پہلے بھی خارج ہو چکی ہے۔
اس پر خاور مانیکا نے جج سے کہا کہ میں آپ سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا، جج نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
خاورمانیکا نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم مگر بانی پی ٹی آئی نے پچھلی عدالتوں میں بھی ایسا ہی کیا، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ ایک بات چیت ہوتی، کچھ ٹھوس وجہ ہے تو بتائیں؟
خاور مانیکا نے کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کارکنان کی نقل اتارتے ہوئے کہا کہ جج بیٹھے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی والے ناچ رہے۔
بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے اپیلیں کسی دوسری عدالت میں منتقل کرنے کے لیے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ خاور مانیکا کی جانب سے کھلی عدالت میں عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا، پہلے بھی عدالت پر عدم اعتماد کی درخواست مسترد کی جا چکی ہے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدت میں نکاح کیس میں اپیلیں کسی دوسری عدالت کو منتقل کردی جائیں، شکایت کنندہ اور ان کے وکیل کی جانب سے اپیلوں میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے، اپیلوں پر فیصلے کے لیے عدالتی ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔
3 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
قبل ازیں 18 جنوری کو دوران عدت نکاح کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری کو غیر شرعی نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
کیس کا پسِ منظر
واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔