ویب ڈیسک: پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی سمندری وسائل کو مؤثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے " بلیو اکانومی کوریڈور" قائم کر سکتے ہیں، جو پائیدار ماہی گیری، آبی زراعت، اور سمندری تجارت پر مرکوز ہو کر ماحولیاتی پائیداری کو یقینی بنائے گی۔
عالمی بینک کے مطابق ایسے مشترکہ منصوبے نہ صرف معاشی فوائد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ طویل المدتی روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتے ہیں، جو ساحلی علاقوں کی معیشت کو مستحکم کریں گے۔
دونوں ممالک ایک مشترکہ سمندری تحقیقاتی ادارہ قائم کر سکتے ہیں، جو سمندری حیاتیات، سمندری دھاروں اور آلودگی پر تحقیق کرتے ہوئے پائیدار ترقیاتی پالیسیوں اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دے گا۔
ماحول دوست شپنگ روٹس کے ذریعے تجارت میں اضافہ کرتے ہوئے دونوں ممالک گرین میری ٹائم لاجسٹکس میں عالمی قیادت حاصل کر سکتے ہیں، بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق، پائیدار شپنگ کے ذریعے سمندری آلودگی کو کم کرتے ہوئے خطے کی اقتصادی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
خلیج بنگال کے ساحلوں پر سیاحتی ترقی سے سیاحت کو فروغ دے کر ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ سیاحتی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے، ماہی گیری کے پائیدار طریقوں کے فروغ کے لیے پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ماہی گیری اتحاد قائم کر سکتے ہیں، جو غذائی تحفظ اور ماحولیاتی توازن کو یقینی بنائے گا۔
سمندری لہروں اور مدوجزر کی توانائی کے استعمال سے دونوں ممالک قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو اپناتے ہوئے فوسل فیول پر انحصار کم کر سکتے ہیں اور توانائی کی حفاظت کو بہتر بنا سکتے ہیں، سمندری پانیوں کو غیر قانونی ماہی گیری اور قزاقی سے محفوظ رکھنے کے لیے دونوں ممالک سیکیورٹی تعاون بڑھا کر تجارت اور ماہی گیری کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
جدید ترین بلیو ٹیکنالوجیز کو آگے بڑھا کر، پاکستان اور بنگلہ دیش موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں دیگر اقوام کے لیے ایک علاقائی مثال قائم کرتے ہوئے، موسمیاتی لچک میں اپنے آپ کو رہنما کے طور پر کھڑا کر سکتے ہیں-
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے مطابق، نیلی ٹیکنالوجیز میں پیش رفت پاکستان اور بنگلہ دیش کو ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی میں ایک مثال بنا سکتی ہے۔
بلیو اکانومی پر مرکوز شراکت داری نہ صرف اقتصادی ترقی کو فروغ دے گی بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو پائیدار بحری طریقوں میں عالمی رہنما کے طور پر پوزیشن میں لائے گی، دونوں ممالک اپنی مہارت اور وسائل کا اشتراک کرتے ہوئے ایک ایسا ماڈل تشکیل دے سکتے ہیں جو پورے خطے کی ترقی کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو۔