ویب ڈیسک: ایودھیا میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کو 1992 میں ہندو ہجوم نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی مذہبی شناخت خطرے میں ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے تین دہائیاں بعد بھی بھارت اور کشمیر میں مسلم عبادت گاہیں غیر محفوظ ہیں۔ 2021 سے اب تک بھارتی فورسز نے 150 سے زیادہ مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا۔ بابری مسجد کے بعد کشمیر میں 200 اسلامی ورثے سے متعلقہ عمارات کو نقصان پہنچایا گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں 90 فیصد سے زائد مسلم تاریخی مقامات بھارتی حکمت عملی کے تحت ختم یا نظر انداز کیے جاچکے ہیں۔ کشمیری مساجد پر گزشتہ چار برس میں500 سے زائد بار پابندیاں عائد کی گئیں۔
بھارتی آئین کے خالق اوردلت کمیونٹی کے معروف رہنما “ڈاکٹربی آرامبیڈکر” کی برسی:
26 نومبر 1949 کو ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے ہندوستان کے آئین کو اپنایا۔ بھارت میں متعدد بار آئین کے خالق کے مجسمے کو بی جے پی کے غنڈوں نے مسمار کیا۔ بھارت اپنے آئین کی منظوری کے وقت سے ہی آئین کی توقیر کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 کو آئین کی دفعات ختم کرکے کشمیری خودمختاری کا خاتمہ کردیا۔
بھارتی فوج کی غیر آئینی طاقت:
کشمیر میں 2020 میں 200 سے زائد سرچ آپریشنز، انسانی حقوق پامال۔ آئین کے تقاضے کہاں؟کشمیر میں عوامی احتجاج پر پابندی، 144 دفعہ کا مسلسل نفاذ، آزادی اظہار پر قدغن لگی ہوئی ہے۔
جموں و کشمیر میں زمینوں کی غیر آئینی فروخت:
غیر کشمیری سرمایہ کاروں کو زمین کی خریداری کی اجازت دیدی گئی ہے۔
2019 سے اب تک 300 سے زائد احتجاجی مظاہروں پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔ جموں و کشمیر میں 370 اور 35 اے کی منسوخی آئینی خلاف ورزی کی مثال ہے۔
نوجوانوں کے آئینی حقوق کی پامالی:
12,000 سے زائد کشمیری نوجوان 2019 سےجیلوں میں قید ہیں۔
بھارت کی دوغلی پالیسیاں:
جموں و کشمیر میں آئینی حقوق معطل، 96,000 سے زائد بےگناہ شہری شہید ہوچکے۔ 2019 کے بعد 1,000 سے زائد دن تعلیمی ادارے بند رہے۔ انٹرنیٹ کی بندش اور لاک ڈاؤن سے طلبہ متاثر ہوئے۔
بھارت کا آئین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی:
کشمیری حق خود ارادیت کا مسئلہ نظر انداز۔ 1948 سے اب تک اقوام متحدہ کی 11 قراردادیں عملدرآمد سے محروم ہیں۔