کیا جینز پہنے بیٹھی لڑکی مسکان ہے؟ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی

کیا جینز پہنے بیٹھی لڑکی مسکان ہے؟ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
بھارتی ریاست کرناٹک میں انتہا پسند نوجوانوں کی جانب سے ہراساں کرنے پر ان کے سامنے ڈٹ جانے والی طالبہ مسکان کی ہر کوئی تعریف کر رہا ہے۔ لوگ اسے خواتین کے عزم وہمت کی مثال قرار دے رہے ہیں۔ تو وہیں سوشل میڈیا پر اس کیخلاف مہم بھی شروع ہو چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مختلف انڈین تنظیموں کی جانب سے پراپگینڈہ مہم کے تحت مسکان کی جعلی تصویریں شائع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا برقع پہننا بس ایک دکھاوا ہے۔ دراصل وہ اپنی نجی زندگی میں انتہائی بولڈ لڑکی ہے جو اکثر جینز اور مغربی لباس زیب تن کئے رہتی ہے۔ مخالفین نے مسکان کی کردار کشی کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گذشتہ دو دنوں سے مختلف تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ مسکان صرف تعلیمی ادارے میں حجاب پہنتی ہیں جبکہ کالج سے باہر ان کا حلیہ مختلف ہوتا ہے۔ ’کریٹ لی ڈاٹ ان‘ نامی اکاؤنٹ کی جانب سے ایک ایسی ہی تصویر ٹویٹر پر شیئر کی گئی جس میں دو تصاویر کو ساتھ جوڑا گیا۔ ہے۔ ایک تصویر میں خاتون جینز اور شرٹ پہنے ہوئے نظر آرہی ہیں اور دوسری میں مسکان کالج میں احتجاج کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اس اکاؤنٹ کا دعویٰ یہ ہے کہ مسکان جو دراصل جینز پہنتی ہیں وہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے کالج حجاب پہن کر آئیں تھیں۔ ایسی ہی تصاویر فیس بک پر بھی شیئر کی گئیں اور دعویٰ کیا گیا کہ مسکان دراصل کرناٹک حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں اور انہیں ایسا کرنے کے لیے پیسے بھی مل رہے ہیں۔ یہی تصویر سوشل میڈیا پر سینکڑوں لوگوں کی جانب سے شیئر کی گئی لیکن انڈیا کی ہی ایک ’فیکٹ چیک‘ ویب سائٹ کے مطابق یہ تصاویر دو مختلف لڑکیوں کی ہیں۔ان میں سے ایک مسکان ہیں اور دوسری کرناٹک کی سیاسی جماعت ’جنتا دل سیکولر‘ کی رکن نجمہ نظیر کی ہیں۔ فیکٹ چیک ویب سائٹ کے مطابق نجمہ نظیر نے اس بات کی خود تصدیق کی ہے کہ مسکان کے ساتھ جوڑی جانے والی تصویر دراصل ان ہی کی ہے۔ نجمہ نظیر کی جس تصویر کو مسکان سے جوڑا جا رہا ہے وہ انہوں نے خود 13 مئی 2018 کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پروفائل پکچر کے طور پر لگائی تھی۔ دوسری جانب کرناٹک کے مختلف شہروں میں حکام نے حجاب کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کرنا شروع کر دی ہے۔ میسور کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایا کہ شہر میں جمعے کو احتجاج کی اجازت مانگی گئی تھی تاہم انہوں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔