اسلام آباد: ( پبلک نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فرد جرم پڑھ کر سنائی۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر عائد فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ آپ کا ضمیر 3 سال تک سویا ہوا تھا، جو اچانک جاگ گیا۔ اب بیان حلفی دینے کا مقصد عدالت پر اثر انداز ہونا تھا۔ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے زیر التوا کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فرد جرم پڑھنے کے بعد رانا شمیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے فرد جرم سن لی ؟ کیا آپ کو چارج قبول ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے رانا شمیم نے فرد جرم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تمام الزامات کا ایک ایک کرکے جواب دوں گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا رانا شمیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ خود چیف جج رہے ہیں، کیا زیر التوا کیس میں اس طرح کی خبر پر فرد جرم نہیں بنتی؟ فرد جرم آپ کو اپنا موقف دینے کا موقع دیتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کورٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے۔ آپ بتا دیں کہ اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی پرابلم ہے۔ اس عدالت کے حوالے سے ہی تمام بیانیے بنائے گئے ہیں۔ اس آئینی عدالت کے ساتھ بہت مذاق ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جولائی 2018ء سے لے کر آج تک وہ آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے۔ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں۔ ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لئے فکس تھا جب سٹوری شائع کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کھل کر بات کرتا ہوں کہ ہمارے پاس چھپانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا ثاقب نثار سے یا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیانیہ صرف یہ بنایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کمپرومائزڈ ہے۔ کیا کریں ہم خاموشی سے بیٹھ کر لوگوں کا اعتماد ختم ہونے دیں۔ جو بیانیہ بنایا گیا وہ بتا دیں ہمارے کون سے آرڈر پر فٹ آتا ہے۔ جن کی اپیلوں سے متعلق بیان حلفی آیا وہ تو اسے ریکارڈ پر نہیں لائے۔ کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟