سپریم کورٹ نے رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران پرویز الٰہی کو مزید شواہد ریکارڈ پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے ملتوی کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی طرف سے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفروضوں پر کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتے۔ دوران سماعت جسٹس منصب اختر نے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے وکیل سے استفسار کیا کہ اپ کے مؤکل کے ایم پی اے کے ساتھ بات کس تاریخ کو ہوئی اور اصل بیان حلفی کدھر ہے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اصل بیان حلفی لاہور میں ہیں، اس ہر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم سوری اس کا مطلب ہے آپ کو بھی علم نہیں۔انھوں نے کہا کہ تینوں بیان حلفی پرعبارت ایک جیسی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہمارے یکم جولائی کے حکم کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟ انھوں نے کہا کہ عطا تارڑ اور ایم پی اے راحیلہ کے خلاف آپ کی توہین عدالت کی درخواست نہیں، جس ہر فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالت راحیلہ اور عطا تارڑ کے خلاف سوموٹو لے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوموٹو لینا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ریاستی مشینری سے بندے اٹھائے جائیں تو یہ فوجداری جرم ہوگا اور جب یہ جرم ہوگا توہین تب ہوگی۔ کسی جرم کو پہلے فرض نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کے وکیل کو توہین عدالت سے متعلق مزید شواہد ریکارڈ پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا جو الزام لگایا ہے اس کو ثابت کریں تاکہ پتا چلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی کے نہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم یہاں پر بیٹھے ہیں اور ہماری آنکھیں بند نہیں ہیں۔