پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ کیا حمزہ شہباز شریف کا دوبارہ وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کا کوئی چانس ہے؟ اس وقت اپوزیشن کے پاس 168 ارکان اسمبلی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس 158 اور مسلم لیگ ق کے پاس 10 ارکان ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن جاری ہونے پر ارکان کی تعداد 173 ہو جائے گی۔ حکومت اتحاد کے پاس اس وقت 176 ارکان اسمبلی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اس وقت 165 ارکان اسمبلی ہیں، پی پی کے 7، راہ حق پارٹی 1 اور 5 آزاد ارکان اسمبلی ہیں۔ 4 ارکان آزاد اسمبلی مسلم لیگ ن کی حمایت کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حکومتی اتحاد کو 3 ووٹوں کی بر تری حاصل ہے۔ https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1542437419122917377?s=20&t=3xrcNhXBCw2jTktPGCo4Nw دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے پنجاب میں سیاسی بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ حمزہ کی حکومت برقرار نہیں رہی لیکن جو حل دیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں بحران ختم نہیں ہوگا۔ فواد چودھری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ اس فیصلے میں کئی خامیاں ہیں۔ لیگل کمیٹی کی میٹنگ بلا لی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں خامیوں کو لے کرسپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ عطا اللہ تارڑ نے حمزہ شہباز شریف کے حلف کے حوالے سے جاری کردہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس فیصلے کو من وعن تسلیم کرتے ہیں۔ اس پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا۔ عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق حمزہ شہباز ہی کل ہونے والے الیکشن تک وزیراعلٰی پنجاب رہیں گے۔ ہمارے پاس اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری ہے۔ ہمارے پاس 176 ارکان کی تعداد ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے پاس اراکین کی تعداد 168 ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تمام منحرف اراکین بھی واپس آ چکے ہیں۔ پانچ آزاد اراکین کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان ازاد پانچ اراکین نے پچھلی ووٹنگ میں بھی حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ایک طرف اس فیصلے پر خوشیاں منا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔ ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھ دیا ہے کہ کل شام 4 بجے ڈپٹی سپیکر وزیراعلٰی کے انتخاب کیلئے ووٹنگ کروائیں گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں انتخابات کے عمل کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی ہے۔ اگر کسی نے انتخابات کے عمل کو پرتشدد بنانے کی کوشش کی تو اس جرم کی سزا 6 ماہ قید ہوگی۔