سپریم کورٹ فیصلہ :وفاقی حکومت کا وزیر قانون، اٹارنی جنرل کے موقف سے اتفاق

سپریم کورٹ فیصلہ :وفاقی حکومت کا وزیر قانون، اٹارنی جنرل کے موقف سے اتفاق
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے پنجاب اور کے پی میں عام انتخابات سے متعلق فیصلے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ن لیگ کے مؤقف پر اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اعلی سطح کا مشاورتی اجلاس ختم ہوگیا،ذرائع کے مطابق حکومت نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے موقف سے اتفاق کیا۔وزیر قانون نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کا اصل میں فیصلہ چار تین سے آیا اور پیٹیشن مسترد ہوگئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے آئینی اور قانونی نکات پر دونوں نے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے ن لیگ کے مؤقف پر دیگر اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیراعظم اتحادیوں سے آج ہی رابطے کرینگے، شہباز شریف نے نوازشریف کو بھی ٹیلی فون کر کے فیصلے کے نکات سے آگاہ کیا ، نوازشریف نے فیصلے پر متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا ۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات 90 دنوں میں کرانےکا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا گیا ہے، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے ۔فیصلے میں5 رکنی بینچ کے 2ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا ہے ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے،آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے ، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں ، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جبکہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی ہے ۔ فیصلے کے مطابق گورنرکو آئین کے تحت3 صورتوں میں اختیارات دیےگئے ہیں ، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 یہ کہتا ہےکہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے ، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنر ہی کرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے،گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا ہے ، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے ، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔ سپریم کورٹ نےیہ حکم دیا ہےکہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے ہیں ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگرکیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خودکو بینچ سے الگ کرلیا تھا اور جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ 9 رکنی بینچ ٹوٹنےکے بعد چیف جسٹس پاکستان نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسے 5 رکنی کردیا۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔