سپریم کورٹ کی جانب سے آئی جی پنجاب پولیس کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے عدالت کو کہا کہ عمران خان پر حملے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور آئی جی پنجاب کو طلب کیا جب کہ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمعرات کو بہت افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا واقعے کا مقدمہ درج ہو چکا ہے؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق زیادہ نہیں جانتا ہوں ، ایف آئی آردرج کرانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن شاید اب تک درج نہیں ہوئی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایف آئی آر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے اب تک پولیس تحقیقات شروع نہیں ہوئیں ہیں، پولیس نے تحقیقات نہیں کیں تو ممکن ہے جائے وقوعہ سے شواہد مٹا دیے گئے ہوں گے اور اس طرح کیس کے ثبوت متنازع اور بعد میں عدالت میں ناقابل قبول ہوں گے۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کرمنل جسٹس سسٹم کے تحت پولیس خود ایف آئی آر درج کروا سکتی ہے، 90 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے اور ابھی تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی جس پر آئی جی پنجاب نے بتلایا کہ حکومت پنجاب نے ایف آئی آر درج کرنے سے منع کیا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کو 24 گھنٹوں کے اندر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ کہا کہ اگر مقدمہ درج نہ ہوا تو سو موٹو نوٹس لیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بین القوامی سطح پر کامیابیوں کا سنا ہے، آپ ایف آئی آر درج کرکے ہمیں آگاہ کریں، آپ کام جاری رکھیں اور اگر کسی نے مداخلت کی تو پھر ہم مداخلت کریں گے۔ خیال رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان 3 نومبر کو وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران ہونے والے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تھے تاہم اب تک واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں کی ہوئی ہے۔