پبلک نیوز: الجزیرہ کی حالیہ رپورٹ میں بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات کو متنازعہ قرار دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ایک طرف مودی سرکار انتخابی مہم کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشا نہ بنا رہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن رہنماؤں پر دباؤ ڈال کر جماعت چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد اپوزیشن امیدواروں پر دباؤ ڈالا گیا جس سے وہ اپنی پارٹی رکنیت سے دستبردار ہوگئے، بہت سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے تا کہ بی جے پی کو اکثریت مل سکے، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پہلے ہی کانگریس کے امیدوار اور پانچ دیگر کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے تھے۔
پرنس پٹیل نامی بھارتی شہری نے مودی سرکار کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہمیں بی جے پی کو ووٹ دینے کے بجائے کبوتر کو ووٹ دوں، میرے بچے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بے روزگار ہیں۔
بھو جن ریپبلکن سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار وجے لوہار نے کہا کہ مودی سرکار کے تسلط کے باعث اپوزیشن امیدواروں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق مودی سرکار ماضی میں بھی متنازعہ حالات میں انتخابی جیت کا اعلان کرتی رہی ہے۔ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ 2014 سے 2019 میں بی جے پی نے گجرات کے حلقے سے تمام سیٹیں جیتیں اور 2019 میں مدھیہ پردیش کے حلقے سے 28 سیٹیں حاصل کیں یہ دھاندلی کی واضح مثال ہے۔
آزاد امیدوار چوہان نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا اور ذہنی طور پر اذیت دی گئی یہاں تک کہ میں نے ہار مان لی۔
گجرات میں مقیم سیاسی تجزیہ کار کے مطابق بھارتی انتخابی عمل میں مودی سرکار کی جانب سے دھاندلی بھارتی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔
مودی سرکار نے انتخابات کی آڑ اور اقتدار کی حوس میں بھارت کے ہر ادارے کو نقصان پہنچایا جس سے عالمی سطح پر اسکی شدید جگ ہنسائی ہوئی۔
اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین جو دیگر ممالک میں تو انتخابات کے بعد فوری طور پر اپنا ردعمل دیتے ہیں، کیا انہیں بھارت میں ہونے والے متنازعہ انتخابات نظر نہیں آرہے جہاں مودی نے تمام طبقوں کو خوفزدہ کرکے جیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔