فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، ترجمان

فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، ترجمان
پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ابھی ہم نے تفصیلی بیان جاری کیا ہے، پچھلے کچھ دنوں میں سیاسی لیڈرشپ کی طرف سے بیانات انتہائی نامناسب ہے، ہم بارباردرخواست کررہے ہیں فوج کوسیاست میں مت گھسیٹیں. ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہماری تمام لیڈرشپ کا اپنی ذمہ داریوں پرفوکس ہے، ہمارا سیاست سے کوئی عمل دخل نہیں ہے، آرمی چیف ایک بہت اہم عہدہ ہیں، آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کارآئین وقانون میں وضع کردیا گیا ہے، آئین وقانون کے تحت ہی تقرری کردی جائے گی، بلاوجہ اس عہدے پربحث کرنا متنازع بنانے والی بات ہے، فوج کوالیکشن کرانے کی دعوت دینا مناسب بات نہیں. ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون اورآئین کے مطابق فوج کوسیاست سے دوررہنے کا آرڈرہے، کسی بھی بلدیاتی انتخابات یا ضمنی انتخابات سے اپنے آپ کودوررکھا ہے، جلسوں یا تقریرکے دوران فوج کوکسی بھی مد میں دعوت دینا انتہائی غیرمناسب بات ہے. ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا پاکستان کی عوام اپنی مسلح افواج سے محبت کرتے ہیں، مسلح افواج کا کردارعوام کے لیے ہمیشہ اچھا رہے گا،مسلح افواج اورعوام کے کردارمیں کسی قسم کی دراڑنہیں آسکتی، پچھلے چند دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے مسلح افواج کی لیڈرشپ کے خلاف بیانات دیئے، بارباردرخواست کی ہےمسلح افواج کوسیاسی گفتگوسے باہررکھیں، ہمارے سیکیورٹی چیلنجزاتنے بڑے ہیں کہ ہم ملک کی سیاست میں شامل نہیں ہوسکتے، اگرملک کی حفاظت کے اندرکوئی بھول،چونک ہوئی تومعافی کی گنجائش نہیں. ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا اگرکوئی سمجھتا ہے کہ فوج کے اندرتقسیم ہوسکتی ہے تواس کوفوج کے بارے پتا ہی نہیں، پوری فوج ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے، فوج اپنے آرمی چیف کی طرف دیکھتی ہے، کسی کوکوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی فوج کے اندرتقسیم پیدا کرسکتا ہے، واضح کردوں جائزتنقید سے پرابلم نہیں ہے، خاص طورپرسوشل میڈیا پرتنقید نہیں پروپگنڈا کیا جاتا ہے، واضح کردوں فوج کے اندرکسی بھی رینک میں کمانڈ کا عہدہ اہم ہوتا ہے، کسی بھی کورکی کمانڈ آرمی چیف کے بعد اہم عہدہ ہوتا ہے. ڈی جی آئی ایس پی آ ر نے کہا ہماری سترفیصد فوج ڈپلائمنمنٹ ہے، مختلف جہگوں پرکاؤنٹرٹیررازم آپریشن کررہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں، جلد الیکشن کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے،فوج کا کوئی کردارنہیں، سیاست دان اس قابل ہیں وہ بیٹھ کربہترطریقے سے فیصلہ کرسکتے ہیں، جب بھی فوج کوکسی سیاسی معاملے میں بلایا گیا تومعاملہ متنازع ہوجاتا ہے، فوج کبھی بھی سیاست دانوں کوملاقات کے لیے نہیں بلاتی، جب فوج کودرخواست کی جاتی ہیں توپھرآرمی چیف کوملنا پڑتا ہے،اس حوالے سے ساری کی ساری ذمہ داری سیاست دانوں پرہوتی ہے، ڈی جی آئی ایس آئی کے دوروں کواوپن نہیں کیا جاتا، ڈی جی آئی ایس آئی کے دورے بیک گراؤنڈ چلتے رہتے ہیں،تمام ممالک کے انٹیلی اجنس چیف کے ساتھ ملاقات اورانٹیلی انجس شیئرنگ ہوتی ہے. ان کا کہنا تھا کہ ہمارے آفیسر، جوان سوسائٹی سے کٹ ہوکر جب افواہیں اورادارے کے بارے غلط بات چیت ہوتوان تک بھی پہنچتی ہے، اس طرح کے بیانات سے ادارے کا مورال متاثرہوتا ہے، آفیسراورجوان ایک ہیں، ہماری لیڈرشپ کا معیاربہت اعلیٰ ہیں، ہمارے جوانوں کواپنے آرمی چیف،کمانڈرپریقین ہوتا ہے، فوج کے ہررینک نے شہادتیں دی ہیں، لیڈرشپ پرتنقید کرنے سے ہرفوجی متاثرہوتا ہے، فوج کا سینٹرآف گریویٹی آرمی چیف ہوتا ہے، بلاوجہ آرمی چیف کے عہدے پرتنقید کے نیگیٹواثرات ہوتے ہیں، بار،بارکہتے ہیں فوج کوسیاست سے دوررکھیں.

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔