لاہور: ( پبلک نیوز) سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ باہر سے غلط فیصلے نہ آتے، پارلیمنٹ کے کام میںمداخلت نہ ہوتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ میڈیا سے گفتگو میں چودھری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 69 بڑا واضح ہے کہ عدالت آئین کے تحت اسمبلی کاررروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اسمبلی کی کارروائی، رولز اور طریقہ کار میں عدالت دخل نہیں دے سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 68 کے تحت ججز کے فیصلے پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آ سکتے۔ اسمبلی میں کیا ہونا ہے اور کیا نہیں، عدلیہ طے نہیں کر سکتی۔ میں الیکشن لڑ رہا تھا، اس لئے اختیارات ڈپٹی سپیکر کو دیے۔ لیکن جب اس نے اختیارات کا غلط استعمال کیا تو میں نے پاورز واپس لے لیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا، آج تک پولیس اسمبلی میں نہیں آئی۔ جب پولیس نے تھپڑ مارے ممبرز کو تو پھر جھگڑا شروع ہوا۔ پولیس کا ہاؤس میں آنا غیر آئینی ہے۔ تمام ہاؤس ممبرز نے پولیس کے خلاف تحریک استحقاق دے دی ہے۔ میں نے تحریک ٹیک اپ کر لی ہے۔ ہم آئی جی کو تین ماہ کی سزا دے سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لوٹے اچھالنا تو نارمل بات ہے۔ لوٹے تو پہلے بھی ہاؤس میں آتے رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر دھبہ تو یہ لگا ہے کہ منحرف ارکان کا فیصلہ کیوں روکا گیا۔ یہ منحرف ارکان کو کیوں ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو لالچ دے کر ورغلایا گیا۔ تین ہوٹلوں میں منحرف ارکان کو روکا گیا۔ میرے ووٹر کو زبردستی اٹھایا گیا۔ حالات کی روشنی میں آئندہ لائحہ عمل دیا جائے گا۔ علیم خان ان کا فنانسر ہے۔ شریفوں نے تو پہلے سے ایک پیسہ نہیں لگایا۔ کم از کم ڈیڑھ سے دو ارب روپیہ ہمارے ارکان کو خریدنے کے لئے استعمال ہوا۔ چودھری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر متنازعہ ہے، ہم اس کو کیسے جج مان سکتے ہیں۔ مجھ سے کوئی سیاسی غلطی نہیں ہوئی۔ تین دفعہ مجھ سے پہلے بھی شریفوں نے وعدے لئے جو کبھی پوری نہیں ہوئے۔ جنہوں نے پولیس اندر بلائی ان پر توہین عدالت لگے گی۔