حماہ پر قبضہ مکمل، باغی گروپ حمص کی طرف روانہ 

حماہ پر قبضہ مکمل، باغی گروپ حمص کی طرف روانہ 
کیپشن: حماہ پر قبضہ مکمل، باغی گروپ حمص کی طرف روانہ 


 ویب ڈیسک :شام کی ’ھیۃ تحریر الشام‘ اور اس کے مسلح دھڑے شام کے چوتھے بڑے شہر حمات پر تین سمتوں سے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد حمص کی طرف روانہ ہو گئے۔
العربیہ ذرائع  کے مطابق کہ شامی مسلح دھڑے اب شام کی سب سے بڑی گورنری حمص شہر کے مرکز سے 48 کلومیٹر دور ہیں۔
یہ پیش رفت سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے بعد سامنے آئی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ حمات کا سب سے بڑا شہر سلمیانیہ شامی فوج کے کنٹرول سے باہر ہو گیا ہے۔
حمص کے دیہی علاقوں میں تلبیسہ شہر بھی دھڑوں کے قبضے میں ہے۔انہوں نے حمص کی جانب جنوبی حمات کے دیہی علاقوں سے 200 سے زائد فوجی گاڑیوں کے انخلاء کی بھی تصدیق کی۔
دوسری جانب شامی ٹیلی ویژن نے حمص کے گورنر کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم نے گورنری میں سکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات کیے ہیں۔
یہ پیشرفت شامی فوج کی جانب سے اسٹریٹجک شہر حمات کو کھونے کا اعتراف کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ ایک بیان میں شامی فوج نے اعلان کیا ہے کہ شہر میں تعینات اس کے فوجی یونٹوں کو "شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے"۔
اس سے پہلے آج مسلح دھڑوں نے حمات میں شامی فوج کے سپاہیوں اور افسروں سے سفید جھنڈے اٹھانے اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایکس پر شائع ہونے والے ایک ویڈیو کلپ میں مسلح دھڑوں کے "میڈیا آپریشنز روم" کے سربراہ حسن عبدالغنی نے فوجیوں سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں اور اپنی حفاظت کا عہد کریں۔
انہوں نے حکومتی فورسز کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ "فیصلہ بالکل قریب ہے۔"
حمات پر اپوزیشن کے قبضے کے بعد شامی دارالحکومت دمشق جو اس سے 220 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے مزیدغیرمحفوظ ہوگیا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اپوزیشن نے حلب کا کنٹرول سنھبالنے کے بعد حمات کا کنٹرول بھی سنھبال لیا ہے۔
شام میں 2020ء کے بعد اس پیمانے کی پہلی لڑائی ایک ڈرائی پیش رفت ہے۔ اس میں ہلاکتوں کی تعداد 826 تک پہنچ گئی ہے جس میں شہری اور فوجی دونوں شامل ہیں۔
 صدر بشار الاسد کی وطن چھوڑنے، استعفا کی تردید
خانہ جنگی کا شکار شام کی حکومت نے صدر بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے سے متعلق ایک ویڈیو کی صداقت کی تردید کی ہے۔
شامی وزارت اطلاعات نے ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر اپنے آفیشل پیج پر ایک بیان میں لکھا کہ "براہ کرم توجہ دیں اور دہشت گرد تنظیموں سے ہوشیار رہیں۔ دہشت گردوں نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ایک من گھڑت ویڈیو کلپ جاری کیا جس میں صدر بشار الاسد کو عہدے سے استعفے کا اعلان کرتے دکھایا گیا ہے‘‘۔

شامی اپوزیشن لیڈر الجولانی کا پہلا پیغام اور انٹرویو

شامی اپوزیشن لیڈر محمد الجولانی نے پہلی بار اپنے اصل نام کے ساتھ باضابطہ میسج بھیجا ہے۔ محمد الجولانی ھیتۃ التحریر الشام کے رہنما ہیں۔
الجولانی پچھلے کئی دنوں سے بین الاقوامی سطح پر خبروں میں مشہور ہیں۔ انہوں نے شام کے شمالی علاقوں میں غیر معمولی پیش قدمی کرتے ہقئے حلب اور حمات کو بشار الاسد کے کنٹرول سے چھڑا لیا ہے۔
انہوں نے حمات شہر پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی بار اپنے نام سے باضابطہ پیغام میں انہوں نے شامی عوام کو حمات کی فتح پر مبارکباد دی ہے۔
 اس میسج کے ساتھ الجولانی اور کمانڈر احمد الشداء کی تصاویر بھی پوسٹ کی گئی ہیں۔
یہ میسج سوشل میڈیا پلیٹ فارم ' ٹیلی گرام ' سے بھیجا گیا ہے۔ الجولانی اپوزیشن کے طاقتور لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
 غیر ملکی سفارتخانوں کو میسیج 
شام میں بشارالاسد کی افواج کے خلاف تیزی سے پیش قدمی کرنے والی ’ھیٗہ تحریر الشام‘ اور اس کے مسلح دھڑوں کی جانب سے شام کے چوتھے بڑے شہر حمات پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تحریر الشام نے جمعرات کی شام دارالحکومت دمشق میں سفارت خانوں کو ایک مکتوب بھیجا ہے۔
 اپنے پیغام میں  انہوں نے کہا کہ  "شام میں متوقع تبدیلی کا مطلب ریاست کا خاتمہ نہیں ہے"۔متوقع تبدیلی ایک مضبوط سول ریاست کی تعمیر کا موقع ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ "مستقبل کے شام کے لیے ہمارا وژن ایک ریاست ہے جس کی بنیاد بات چیت پر ہے"۔
سی این این کو اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’جب ہم مقاصد کی بات کرتے ہیں تو انقلاب کا ہدف اس حکومت کا تختہ الٹنا ہی رہتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنا ہمارا حق ہے انہوں نے اداروں اور "عوام کی طرف سے منتخب کردہ کونسل" پر مبنی حکومت بنانے کے منصوبوں کے بارے میں بات کی۔
 انہوں نے کہا کہ میں عمر کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے کئی مراحل سے گذرا ہوں یہ انسانی فطرت ہے
 انہوں نے کہا کہ  شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں شہریوں  کیلئے خوف کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’جو لوگ اسلامی طرز حکمرانی سے خوفزدہ ہیں وہ یا تو اس کے غلط نفاذ کو دیکھ چکے ہیں یا اسے صحیح طرح سے نہیں سمجھتے‘‘۔
اگر حزب اختلاف کی قوتیں اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، تو یہ "گورننس، اداروں اور اسی طرح کی ریاست" میں تبدیل ہو جائے گی۔’’
 انہوں نے  کہا کہ وہ عام شہریوں اور گروہوں کو امن  یقین دلانے کے لیے کام کر  رہے ہیں  جنہیں شام کی دہائیوں سے جاری خانہ جنگی میں شدت پسند اور جہادی گروپوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔  انہوں  نے یہ بھی کہا کہ وہ عیسائیوں اور دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو  واضح طور پر بتاناچاہتے ہیں کہ وہ مستقبل کی  حکمرانی میں محفوظ رہیں گے۔
"کسی کو دوسرے گروہ کو مٹانے کا حق نہیں ہے۔ یہ فرقے سینکڑوں سالوں سے اس خطے میں ایک ساتھ موجود ہیں، اور کسی کو بھی ان کو ختم کرنے کا حق نہیں ہے،‘
‘ انہوں نے کہا کے کچھ  انتہا پسند طریق کار نے HTS اور جہادی گروپوں کے درمیان "تقسیم پیدا کر دی"۔  انہوں  نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ کبھی بھی ذاتی طور پر شہریوں پر حملوں میں ملوث نہیں رہا۔
 ان"حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ اس کے اندر ہی رہے ہیں… ایرانیوں نے وقت خرید کر حکومت کو بحال کرنے کی کوشش کی، اور بعد میں روسیوں نے بھی اسے سہارا دینے کی کوشش کی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت مر چکی ہے۔
 ایران اور حزب اللہ کی مدد نہ پہنچ سکی 
حالیہ عرصے کے دوران ایران نے شامی افواج کی مدد کے لیے جنگجوؤں کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے اور حزب اللہ اور کچھ عراقی دھڑوں کے ارکان کو شام میں تعینات کیا ہے۔ ایسا سپاہیوں اور رہنماؤں نے و واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ لڑائی میں مشغول ہونے کے احکامات کے منتظر ہیں۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ گزشتہ تین مہینوں سے جاری پرتشدد جنگ کے نتیجے میں حزب اللہ کے نمایاں طور پر بگاڑ کے بعد یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ آیا یہ جماعت اس بار شامی تنازعے کا رخ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ عراقی ملیشیا کچھ خلا کو پر کر سکتی ہیں لیکن ان کے جنگجو حزب اللہ کی طرح تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ ان کے ہتھیار اور گولہ بارود حزب اللہ کے پاس موجود مقدار سے کم ہیں۔ اس تناظر میں حزب اللہ کے ایک رکن نے بتایا کہ ایران ہمارے ساتھ کھڑا ہے اس لیے ہم اتحادی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
ذرائع نے واضح کیا ہے کہ ان کے زیادہ تر جنگجو مشرقی شام میں ہیں جہاں امریکہ کی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیر الزیر کے قریب شامی فورسز کے کنٹرول میں آنے والے دیہاتوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ گروپ فی الحال شمالی شام میں جنگجو بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
لبنان کے مختلف علاقوں، خاص طور پر بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں، جنوب اور البقاع(مشرق) پر اسرائیل کی جانب سے حملوں میں اضافے کے بعد حزب اللہ کو گزشتہ ستمبر سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اسرائیل نے حزب اللہ پارٹی کے درجنوں اعلیٰ رہنماؤں کو بھی قتل کیا ہے جن میں خاص طور پر اس کے سابق سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ اور ان کے جانشین ہاشم صفی الدین شامل ہیں۔ حزب اللہ کے کئی فوجی رہنما بھی اسرائیلی حملوں اور قتل و غارت میں مارے گئے ہیں۔ 
انہوں نے واضح کیا کہ شام کے اندر تعینات لبنانی اور عراقی جنگجو اور عناصر اس وقت "دفاعی" پوزیشن میں ہیں لیکن اگر ان کے احکامات تبدیل ہوتے ہیں تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو بڑے پیمانے پر لبنانی سرحد عبور کرکے حماۃ اور حمص کے شہروں کی طرف پھیل چکے ہیں۔

صدر ترکیہ ایردوان اور سیکرٹری اقوام متحدہ کا ٹیلیفونک رابطہ
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے کہا ہے کہ شام کے تنازعے میں ایک نیا مرحلہ سکون کے ساتھ طے کیا جا رہا ہے۔ ترکیہ کے صدر کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق طیب ایردوان نے انتونیو گوتریس سے فون کال پر اس امر کا اظہار کیا ہے۔
ایردوان نے گوتریس سے بات چیت میں کہا شامی حکومت کو مسئلے کے سیاسی اور مذاکراتی حل کے لیے اپوزیشن کے ساتھ فوری طور پر رجوع کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا ترکیہ شام میں کشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔

Watch Live Public News