ویب ڈیسک: بنگلہ دیش کی مستعفی ہونے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اخر وقت تک مظاہرین کے خلاف سخت طاقت کا استعمال کرنا چاہتی تھیں لیکن پھر ایک بات نے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ حسینہ واجد کے اقتدار میں آخری ایک گھنٹے کی کہانی سامنے آگئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بنگلا دیش کے اخبار پروتم آلو کے مطابق وزیراعظم حسینہ واجد مظاہرین کی خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہتی تھی اور انہوں نے پیر سے کرفیو اس وقت کرنے کے احکامات دیے تھے لیکن 9 بجے کے قریب مظاہرین نے کرفیو توڑنا شروع کر دیا اس پر ایسی واجد نے تین سروسز چیف اور پولیس کے انسپیکٹر جنرل کو وزیراعظم ہاؤس میں طلب کیا۔
اجلاس کے دوران حسینہ واجد پر برس پڑیں ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے خلاف خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ انہوں نے کہا کہ بکتر بند گاڑیوں پر چڑھنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی۔
اس دوران سروسز چیف اور آئی جی نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں۔
بنگلا دیش کے ایک اخبار کا کہنا ہے کہ میٹنگ کے دوران حسینہ ماجد کے بیٹے سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہوں نے بھی اپنی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
حسینہ واجد اقتدار فوج کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھی اور انہوں نے سروس سروسز چیف کو یاد دلایا کہ ان کی تقریریں انہوں نے ہی کی ہیں۔خاندان سے صلاح و مشورے کے بعد حسینہ واجد استعفی دینے کو تیار ہو گئیں۔
تاہم اقتدار چھوڑنے سے پہلے وہ ایک تقریر ریکارڈ کرانا چاہتی تھیں۔ اس پر حسینہ واجد کو بتایا گیا کہ مظاہرین وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہیں وہاں پہنچنے میں 45 منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے اگر مظاہرین پہنچ گئے تو حسینہ واجد کو بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔
یاد رہے کہ پیر کو یہ بات سامنے آئی تھی کہ فوج نے حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے کے لیے 45 منٹ کا الٹی میٹم دیا ہے۔ یہی وہ الٹی میٹم تھا۔
شیخ حسینہ واجد ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں جب وزیراعظم ہاؤس سے فرار ہوئی تو اس کے کچھ ہی دیر بعد ہزاروں افراد نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
شیخ حسینہ جس ہیلی کاپٹر میں فرار ہوئیں اس نے پہلے بھارت میں اگر تلہ کے بی ایس ایف بیس پر لینڈنگ کی۔ اس کے بعد شیخ حسینہ وہاں سے دلی کی طرف روانہ ہوئی اور اور دلی کے قریب ہنڈن ایئرپورٹ پر اتریں۔