بنگلہ دیش میں سیاسی بغاوتوں کی تاریخ پر ایک نظر!

بنگلہ دیش میں سیاسی بغاوتوں کی تاریخ پر ایک نظر!
کیپشن: بنگلہ دیش میں سیاسی بغاوتوں کی تاریخ پر ایک نظر!

ویب ڈیسک : (علی زیدی) بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ  کی اقتدار سے بے دخلی اور بھارت فرار نے ایک بار پھر ملک کی سیاسی ہلچل اور بغاوتوں کی تاریخ پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی بغاوتوں کی تاریخ نئی نہیں۔

آئیے نظرڈالتے ہیں بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ پر۔ یہ امر تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں ہر بغاوت خونی بغاوت ثابت ہوئی۔ آئیے جانتے ہیں۔ 

1971 

بنگلہ دیش کا قیام بھی ایک بغاوت کانتیجہ تھا جو اس وقت کی یحییٰ حکومت کے خلاف شیخ مجیب الرحمان نے کیا اور مشرقی پاکستان کہلانے والا پاکستان کا حصہ ایک جنگ کے نتیجہ میں علیحدہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار سنبھالا۔

1975

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پہلی بغاوت کا  آغاز 1975 میں ملک کے پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان کےایک فوجی بغاوت میں قتل سے ہوا تھا۔

مستعفی ہونے والی وزیراعظم حسینہ کے والد، اور ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد سمیت ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا۔

جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ اسی سال دو اور بغاوتیں نومبر میں جنرل ضیاء الرحمن کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ختم ہوئیں۔

بنگلہ دیش نے جنوری 2010 میں ان پانچ سابق فوجی عہدے داروں کو، جنھوں نے 1975ء میں قوم کی آزادی کے قائد کو قتل کیا تھا، پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔

قتل کا مشہور مقدمہ مقتول قائد کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت میں چلا۔ وہ اس سے ایک سال قبل ملک کی دوسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوئی تھیں۔

1981

جنرل ضیاء الرحمن کو باغیوں نے چٹاگانگ شہر میں ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں گھس کر قتل کر دیا جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔ خیال کیا جاتاہے کہ یہ تشدد فوجی افسروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی کارروائی تھی، لیکن فوج خود وفادار رہی اور بغاوت کو کچل دیا۔

1982

جنرل ضیاء الرحمن کے جانشین عبدالستار کو حسین محمد ارشاد کی سربراہی میں ایک خونریز فوجی انقلاب میں معزول کر دیا گیا، جنہوں نے پہلےچیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ اور بعد میں صدر کا عہدہ سنبھالا۔

عوامی احتجاج اور ہنگاموں کے بعد جنرل حسین محمد ارشاد کو انیس سو اکانوے میں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔

2007

آرمی چیف نے فوجی بغاوت کے بعدایک نگراں حکومت کی حمایت کی جس نے اگلے دو سال تک ملک پر حکمرانی کی جس کے بعد شیخ حسینہ واجد نے 2009 میں اقتدار سنبھالا۔

2009

اس سال اپنی اجرتوں اور دیگرحالات سے برہم، بنگلہ دیش رائفلز کے سرحدی محافظوں نے دارالحکومت ڈھاکہ میں 74 سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں زیادہ تر فوجی افسرتھے۔

بغاوت کے دوران سرحدی محافظوں نے ڈھاکہ میں اپنی مرکزی بارکوں پر قبضہ کرلیا تھا اور بغاوت مختلف چوکیوں تک پھیل گئى تھی۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ بغاوت کم تنخواہوں اور ناروا سلوک پر احتجاج کے طور پر شروع ہوئى تھی۔ یہ چھ دن کے بعد ختم ہو گئی تھی اور ناراض محافظوں نے سلسلہ وار بات چیت کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ جس کے بعد ہلاکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی گئیں۔

2012

بنگلہ دیش کی فوج نے کہا کہ اس نے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی بغاوت کی ایک کوشش کو ناکام بنا دیا ہے جو پورے ملک میں شریعت یا اسلامی قانون متعارف کرانے کی مہم کے ذریعے چلائی گئی تھی۔

2024

بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے پانچ اگست کو کہا کہ حسینہ واجد نے کوٹہ مخالف پرتشدد مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک کی قیادت کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔