حسینہ واجد کےمستعفیٰ ہونے کے چند منٹ پہلے بنگلہ دیش میں‌ کیاہوا؟

حسینہ واجد کےمستعفیٰ ہونے کے چند منٹ پہلے بنگلہ دیش میں‌ کیاہوا؟
کیپشن: Sheikh Hasina
سورس: web desk

ویب ڈیسک: بنگلہ دیشی عوامی احتجاج اور فوج کے دباؤ کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے والی شیخ حسینہ کے آخری 45 منٹ میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے۔

بنگلہ دیش کی مستعفی وزیراعظم جو شدید عوامی احتجاج اور فوج کے دباؤ کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر بہن کے ہمراہ بھارت فرار ہوچکی ہیں۔ بنگلہ دیشی آرمی چیف نے انہیں گزشتہ روز 45 منٹ میں اقتدار اور ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ ان 45 منٹوں میں وہاں کیا کچھ ہوا وہ چشم کشا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بڑھتے عوامی احتجاج اور فوج کی جانب سے عوام کی مکمل حمایت کے اعلان کے بعد شیخ حسینہ واجد نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ ملک چھوڑنے سے قبل بنگلہ دیشی قوم کو قوم کو ویڈیو پیغام دینا چاہتی تھیں لیکن فوج نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے اپنا ایک پیغام خط کی صورت میں لکھا تھا، لیکن فوجی اہلکاروں نے انہیں خط پڑھنے اور ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دی۔

 آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے انہیں اقتدار کے ساتھ ملک چھوڑنے کے لیے صرف 45 منٹ کا وقت دیا تھا, سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم کا خاندان پہلے ہی ملک سے باہر جا چکا تھا۔

بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پیر 5 اگست کی صبح 9 بجے تک بنگلہ دیش میں صورتحال بہت زیادہ خراب نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ہزاروں احتجاجی طلبا کا ایک گروپ غازی پور بارڈر سے لانگ مارچ میں ڈھاکا میں داخل ہوا، جس کے بعد جب حالات خراب ہونے لگے۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج میں دو دھڑے بن چکے تھے، فوج کے اعلیٰ افسران شیخ حسینہ کے حق میں تھے، لیکن جونیئر فوجی افسران اور 60 ریٹائرڈ فوجی افسران شیخ حسینہ کے خلاف تھے۔

 گزشتہ روز دوپہر ایک بجے کے قریب فوج کی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا، جس کے بعد وہ فیصلہ ہوا جس کا آرمی چیف نے اعلان کیا اور حسینہ واجد کو ملک چھوڑنے کے لیے 45 منٹ کا وقت دیا تھا۔

اس ملاقات کے بعد بنگلہ دیش کی فوج نے شیخ حسینہ کو مطلع کیا کہ طلبا کے لانگ مارچ کے دوران انہیں فوج نہیں روکے گی، ایسے میں کل یعنی پانچ اگست کی صبح نو بجے تک صورتحال ٹھیک تھی۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد اقتدار کے خاتمے کے بعد اپنی بہن ریحانہ کے ہمراہ بھارت فرار ہوچکی ہیں اور اب وہاں سے انہوں نے برطانیہ میں طویل سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی ہے۔