شیخ حسینہ کی برطرفی بھارت کیلئے ویسا ہی دھچکا ہےجیسے امریکا کیلئے افغانستان

شیخ حسینہ کی برطرفی بھارت کیلئے ویسا ہی دھچکا ہےجیسے امریکا کیلئے افغانستان
کیپشن: شیخ حسینہ کی برطرفی بھارت کیلئے ویسا ہی دھچکا ہےجیسے امریکا کیلئے افغانستان

ویب ڈیسک: (علی زیدی) شیخ حسینہ اور بھارت کا مضبوط قریبی تعلق بھی عوامی نفرت کی وجہ بنا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے صرف حسینہ واجد پر بھروسہ کرکے بھارت نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے جس کا نقصان اب بھارت کو اٹھانا ہوگا۔ اب حسینہ حکومت کی برطرفی بھارت کیلئے ویسا ہی دھچکا ہے جیسے امریکا کیلئے افغانستان۔

تفصیلات کے مطابق انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔

بھارت سابق خارجہ سیکریٹری ہرش وردھن شرینگلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ شیخ حسینہ کے تعلقات صرف حکومت سے ہی نہیں انڈیا کی سیاسی قیادت سے بھی بہت گہرے ہیں۔

شیخ حسینہ واجد کی خود ساختہ جلا وطنی

1975 میں جب ان کے والد شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت شیخ حسینہ یورپ میں تھیں۔ وہاں سے وہ دلی آئیں اور یہاں کئی برس مقیم رہیں۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شیخ حسینہ کے شوہر کا کردار

اس وقت حسینہ کے شوہر جو ایک سائنسدان تھے انھیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی تھی۔ شیخ حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں ایک سائنسدان تھے جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ رہ چکے تھے اور سقوط ڈھاکہ سے قبل کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے لیکن پھر حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔

شیخ حسینہ کے بھارت سے بڑے معاہدے

شيخ حسینہ تقریباً 21 برس بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ وہ گزشتہ 16 برس سے مسلسل وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد انہوں نے انڈیا سے پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ کیا، نئے نئے تجارتی راستے کھولے، بنگلہ انکلیو کے تبادلے اور امن معاہدہ کیا۔

خالدہ ضیاء بمقابلہ شیخ حسینہ 

خالدہ ضیا کی حکومت کے درمیان بنگلہ دیش میں انتہا پسند طاقتوں کو شہ ملی اور وہاں کئی تنظیمیں تشدد پر اتر آئیں۔ اںڈیا بھی ان انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کی زد میں آیا اور انڈیا کے تعلقات خالدہ ضیاء کی حکومت سے خراب ہوتے گئے۔ لیکن شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے رشتے بہت گہرے ہو گئے۔

بھارت سے بنگلہ دیشی عوام کی نفرت 

چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا اسی لیے وہاں کی عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔

انڈیا امریکہ، برطانیہ اور پوری دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ اگر عوامی لیگ ہار گئی تو بنگلہ دیش انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔

انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انہیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑسکتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔

بھارت ایک بھی سرکاری بیان جاری نہ کرسکا

بظاہر انڈیا اس وقت بہت سنبھل کر چل رہا ہے۔ ڈھاکہ میں کئی دن سے جاری مظاہروں اور ہلاکتوں کے واقعات سے لے کر شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور ان کے انڈیا پہنچنے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے ابھی تک ایک بھی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔